نیتن یاہو کی اسرائیلی عدلیہ میں تبدیلیاں لانے کے پس پردہ حقائق
نتن یاہو اپنی طاقت کو مستحکم کرنے اور احتساب سے بچنے کے لیے سیاسی تقسیم کو مزید ہوا دینے، کمزور اتحاد کو کمزور کرنے، اور اسرائیل کی معیشت کو غیر مستحکم کرنے کا خطرہ مول لیے ہوئے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، حکومت کو عدالتی تقرریوں پر زیادہ اختیارات دلانے اور ملکی عدالتی نظام کی خود مختاری کو نمایاں سطح تک کمزور بنانے والے متنازعہ عدالتی اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں کی تجدید کر رہے ہیں۔
رواں سال کے اوائل میں اجتماعی مظاہروں کو جنم دینے والی اصلاحاتی تجاویز اسرائیلی تاریخ کے سب سے بڑے مظاہروں کا موجب بنی تھیں جس سے قانون سازی کو عارضی طور پر منجمد کردیا گیا تھا۔
نیتن یاہو کی حکومت یہ کہہ کر اصلاحات کا جواز پیش کرتی ہے کہ یہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ ان کے اتحادیوں نے بھی پارلیمانی امور میں سپریم کورٹ کی مبینہ مداخلت کو روکنے کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
تا ہم حقائق قدرے مختلف ہیں۔
احتساب کا خوف
نیتن یاہو کی حکومت یہ کہہ کر اصلاحات کا جواز پیش کرتی ہے کہ یہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ ان کے اتحادیوں نے بھی پارلیمانی امور میں سپریم کورٹ کی مبینہ مداخلت کو روکنے کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
نیتن یاہو کی عدلیہ کی بحالی کے لیے نئی عجلت اس ہفتے سامنے آئی جب وہ اس ہفتے کرپشن کے الزامات پر عدالت میں پیش ہوئے، جس میں ان پر رشوت ستانی، دھوکہ دہی اور اعتماد کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔
علاوہ ازیں 7 اکتوبر کو حماس کی قیادت میں اسرائیل پر ہونے والے حملوں کے لیے جوابدہی کے عوامی مطالبات بڑھ رہے ہیں۔ ایک جامع عدالتی تفتیش نیتن یاہو انتظامیہ کی تیاری یا اس کے فقدان کے بارے میں نقصان دہ تفصیلات کا انکشاف کر سکتی ہے اور خود نیتن یاہو سمیت اعلیٰ حکام کو جوابدہ ٹھہرا سکتی ہے۔
اس تناظر میں، اصلاحات اصولوں کی بجائے وزیر اعظم اور ان کی حکومت کو جانچ پڑتال اور اس کے نتائج سے بچانے پر مبنی دکھائی دیتی ہیں۔
حملوںمیں بچنے والوں اور یرغمالیوں کے رشتہ داروں کی قیادت میں قلیل مدت پیشتر جاری کردہ کمیشن کی ایک سخت رپورٹ میں نیتن یاہو پر اعلیٰ فیصلہ سازی کو کمزور کرنے اور 7 اکتوبر کو ہونے والے حملے کا موقع فراہم کرنے والے حالات کو ساز گار بنانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
اگر سپریم کورٹ نیتن یاہو کے طرز عمل کی تحقیقات کی نگرانی کے لیے ایک غیرجانبدار جج کا تقرر کرتاہے، تو وزیر اعظم کی طرف سے سد باب کرنے کا مصمم ارادہ ہونے والا کوئی منظر نامہ پہلے سے ہی جاری عوامی غصے میں اضافہ کر سکتا ہے۔
اس صورت میں انکوائری کا ایک ریاستی کمیشن ، نیتن یاہو کے جنگ سے قبل کے موقف کا بخوبی جائزہ لینے اور استغاثہ کی زمین ہموار کرنے کے لیے بھاری تعداد میں گواہوں کو پیش کر سکتا ہے۔ یہ نیتن یاہو کی جانب سے حملوں سے معقول شکل میں منکر ہونے کی کوششوں اور فوج پر الزام لگانے کی خواہش کو ناکام بنا سکتا ہے۔
تاہم، عوامی دباؤ نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے۔ اسرائیل کے وزیر انصاف یاریو لیون، جو نیتن یاہو کے معتمد ہیں اور جوڈیشل نظرِ ثانی منصوبے کے مرکزی کردار ہیں ، کو سپریم کورٹ کی جانب سے اگلے سال جنوری کے وسط تک نئے چیف جسٹس کی تقرری کے مطالبات کا سامنا ہے۔
یہ وزیر اعظم کی تقرری کے عمل میں تاخیر اور ایک ایسے جج کو ترقی دینے کی کوششوں کو پیچیدہ بنا سکتا ہے جو نیتن یاہو اور ان کے انتہائی دائیں بازو کے اتحاد کے لیے زیادہ سازگار ہو۔ مہلت کے کم ہونے کو بالائے طاق رکھا جائے تو ، وزیر اعظم کے نظر ثانی منصوبے کی مخالفت کرنے والے بائیں نظریات کے حامل جج اسحاق امیت کی ترقی قطعی دکھائی دے رہی ہے ، جو کہ نیتن یاہو کے طاقتور بننے میں مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
ایسا دکھتا ہے کہ اپنے مفادات کے تحفظ کی دوڑ میں نیتن یاہو اس حقیقت کو فراموش کر گئے ہیں کہ عدالتی اصلاحات پر زور دینے سے اسرائیلی عوام کے رد عمل میں اضافے کا خطرہ بڑھ جائیگا۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ معاملہ غزہ میں قید یرغمالیوں کی بازیابی جیسے زیادہ ہنگامی ترجیحات سے توجہ ہٹانے کی ایک چال ہے۔
اگرچہ نیتن یاہو نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ یرغمالیوں کو امریکی تعاون سے رہا کر دیا جائے گا، تاہم انہوں نے ابھی تک تقریباً تین درجن اسیروں کی ہلاکت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے جن کے مر چکنے کا خدشہ پایا جاتا تھا۔ کئی مہینوں سے عوامی احتجاج جاری ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن کا رد عمل خاموشی سے نہیں تمھیں گا۔
کولیشن قائم کرنے میں مشکلات
عدلیہ کے اختیارات کو محدود بنانے کے لیے دباؤ ڈالنا نیتن یاہو کے کمزور اتحاد کے اندر بھی اختلافات کو گہرا کر سکتا ہے۔ پچھلے سال، بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہروں نے انتہائی دائیں بازو کی حکومت کو مظاہرین کی ایک بڑی تعداد کے خلاف کھڑا کیا، جس نے طاقت کے استعمال کے الزامات کو ہوا دی اور حالات مزید کشید ہ ہوئے۔
نیتن یاہو پر اسرائیل کے اٹارنی جنرل کی طرف سے انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر کو اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات پر برطرف کرنے کا دباؤ ہے۔ اس لیے عدالتی اصلاحات کے لیے ایک نیا دباؤ بین گویر کے خلاف مواخذے کے مقدمے کو تقویت دے سکتا ہے، جس کی حمایت نیتن یاہو کے لیے قائل اکثریت کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے۔
نیتن یاہو کے الٹرا آرتھوڈوکس اتحادی شراکت دار ان کے لیے ایک اور بڑی رکاوٹ ہیں۔ وزیر اعظم کوریڈیکل آرتھوڈوکس یہودیوں کو فوجی خدمات سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کے مطالبے کو پورا کیے بغیر کسی بھی عدالتی اصلاحات کو نافذ کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نیتن یاہو کو اب تک اپنے اتحادیوں کو اس بات پر قائل کرنے میں مشکل پیش آئی ہے کہ ان کے مفادات کا تحفظ کیا جا رہا ہے۔
اگر وزیر اعظم اپنے مطالبات کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں، تو وہ اسرائیل کی سپریم کورٹ کے ساتھ ممکنہ جھڑپ کا خطرہ مول لے سکتے ہیں، جس نے کٹر آرتھوڈوکس لوگوں کو فوجی خدمات سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ دوسری طرف اگر وہ ان مطالبات کو نظر انداز کرتا ہے تو ریکارڈ مدت میں عدالتی اصلاحات کے نفاذ کے اس کے ہدف میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔
حکومت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کی وجہ سے کوئی آسان آپشن نہیں ہے۔ الٹرا آرتھوڈوکس کمیونٹی کی سرکردہ شخصیات نے پہلے ہی حکومت کی جانب سے کارروائی نہ کرنے کو اپنی برادری کے خلاف "اعلانِ جنگ" سے تعبیر کرنا شروع کر دیا ہے۔
یہاں تک کہ سابق چیف ربی یتزاک یوزف نے بے روزگار اسرائیلیوں سے فوج میں خدمات انجام دینے سے انکار کر کے حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت کا اشارہ دیا۔ اگر نیتن یاہو عدالتی اصلاحات کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو اسے انتہائی دائیں بازو کے لیے روکنے کی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی اس کے نازک اتحاد کو کمزور کرنے یا حکومت کی معزولی کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اقتصادی خطرہ
اس سارے سیاسی ڈرامے کے درمیان، یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ نیتن یاہو کے عدالتی عزائم کے معاشی نتائج اسرائیل کے لیے غیر مستحکم ہو سکتے ہیں۔
مجوزہ نظرثانی سے قرض لینے کی لاگت میں اضافہ، اسرائیل کے ہائی ٹیک سیکٹر کو کمزور کرنے اور ملکی کرنسی کو کمزور کرنے کا خطرہ ہے۔ حکومت مخالف مظاہروں کا دوبارہ آغاز غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں قرض لینے کی لاگت پر منفی اثر پڑتا ہے۔
تاریخ ایک اہم رہنما: پچھلے سال کے زبردست مظاہروں نے معیشت کو شٹ ڈاؤن کے دہانے پر پہنچا دیا اور اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ 2025 میں خطرات اور بھی زیادہ ہوں گے۔
نیتن یاہو کی حکومت پہلے ہی ایک ایسے وقت میں ترقی پر مبنی اصلاحات کو فروغ دینے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے جب تقریباً 60,000 اسرائیلی کمپنیاں بند ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
نئی عوامی مخالفت کا خطرہ غزہ جنگ کی وجہ سے متزلزل معیشت میں غیر یقینی صورتحال کو بھی بڑھا سکتا ہے۔ یہ سب کچھ حکومت پر کفایت شعاری کے اقدامات کے لیے دباؤ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بڑھتے ہوئے بجٹ خسارے کو کنٹرول میں لانے کی کوششوں کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔
متنازعہ عدالتی اصلاحات کے لیے نیتن یاہو کے دباؤ کا اسرائیل کی نام نہاد "جمہوریت" کے تحفظ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس کے برعکس یہ 7 اکتوبر کی ناکامیوں کے احتساب سے بچنے کی کوشش ہے۔ درحقیقت، جیسے جیسے عوامی صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے اور سیاسی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، نیتن یاہو کی اسرائیل کی عدلیہ کو از سر نو تشکیل دینے کی کوششیں ان کی حکومت کو تباہی کے دہانے پر دھکیل سکتی ہیں۔