جولائی میں حلف اٹھانے کے بعد اپنے عہدے پر فائز ہونے والے وزیر اعظم کے پی شرما اولی اپنے پہلے غیر ملکی سرکاری دورے کے دائرہ کار میں چین کا دورہ کیا۔ روایات کے برعکس، انہوں نے اپنی پہلی سرکاری ملاقات کے لیے نیو دہلی کے بجائے چین کو منتخب کیا، حالانکہ نیپال کے بھارت کے ساتھ صدیوں پر محیط قریبی تعلقات رہے ہیں۔
نیپال اور چین نے 2017 میں چینی صدر شی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے لیے ایک ابتدائی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جو چین کے بنیادی ڈھانچے اور تجارتی رابطوں کو دنیا بھر میں وسعت دینے کا ایک منصوبہ ہے۔
تاہم، باہمی تعاون کے لیے ضروری فریم ورک کی عدم موجودگی اور نیپال کی سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث گزشتہ سات سالوں میں کوئی بھی منصوبہ نہ تو تیار کیا جا سکا اور نہ ہی شروع کیا گیا۔
قرض کے خدشات
معاہدے پر دستخط کیے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک اب منصوبوں کی تفصیلات پر کام کریں گے، جن میں سڑکوں کی بہتری اور ٹرانسپورٹ کوریڈورز شامل ہو سکتے ہیں، اور مالی اعانت کے ذرائع کا تعین کیا جائے گا۔
اسی دوران، قرض کے خدشات اولی کی مخلوط حکومت کے اندر بحث و مباحثے کا باعث بنے ہیں۔ اولی کی اہم اتحادی، نیپالی کانگریس پارٹی، قرضوں کے ذریعے مالی اعانت حاصل کرنے والے کسی بھی منصوبے کی مخالفت کر رہی ہے۔
نیپالی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر ایک پوسٹ میں کہا، "آج بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کا فریم ورک معاہدہ طے پایا،" تاہم مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
چین نے نیپال کو 216 ملین ڈالر کا قرض دیا تھا تاکہ کٹھمنڈو کے مغرب میں تقریباً 125 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ملک کے دوسرے بڑے شہر پوکھرا میں ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ تعمیر کیا جا سکے۔ یہ ہوائی اڈہ گزشتہ سال فعال ہوا تھا۔
تاہم، چین کے تیار کردہ اس ہوائی اڈے کو، جسے بیجنگ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی کامیابی کی علامت سمجھتا ہے، بین الاقوامی پروازوں کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے، کیونکہ بھارت نے اس ہوائی اڈے پر جانے والی پروازوں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔