سیاست
7 منٹ پڑھنے
مارشل لا بحران: جنوبی کوریا میں یون مواخذے سے دو چار
جنوبی کوریا کے پارلیمانی ممبران  نے بدھ کے روز صدر یون سک یول کی طرف سے کے مارشل لا نافذ کرنے کے فیصلے کے باعث ان  مواخذے کی تجویز پیش کی۔ یون نے پارلیمنٹ اور فوج کے درمیان پیدا ہونے والے انتشار کے بعد اپنے اس فیصلے کو واپس لے لیا تھا۔ اس واقعے نے مل
مارشل لا بحران: جنوبی کوریا میں یون مواخذے  سے دو چار
ایک آدمی ایک پلے کارڈ پکڑے ہوئے ہے کیونکہ لوگ جنوبی کوریائی صدر یون سوک-یول کی مذمت کرتے ہوئے شمعوں کی روشنی میں جمع ہوتے ہیں، اور اس کے استعفے کی مطالبہ کرتے ہیں، سیول، جنوبی کوریا، 4 دسمبر 2024
5 گھنٹے قبل

یون کی طرف سے منگل کی شب  مارشل لا نافذ کرنے کا اعلان جنوبی کوریا میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے اور میڈیا پر سنسرشپ لگانے کا مقصد رکھتا تھا۔ جنوبی کوریا، ایشیا کی چوتھی بڑی معیشت  ہےاور اسے امریکہ کے ایک اہم اتحادی کی حیثیت حاصل  ہے۔

مسلح فوجی سیئول میں قومی اسمبلی کی عمارت میں زبردستی داخل ہو گئے، لیکن اسمبلی کے عملے نے آگ بجھانے والے آلات سے مداخلت کی، جس سے وہ  پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔ پارلیمانی نمائندوں نے مارشل لا کے فیصلے کو مسترد کر دیا، جبکہ باہر مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی۔

بدھ کی شام، سول سوسائٹی اور مزدور گروہوں نے سیئول کے مرکزی علاقے میں موم بتیوں کے ساتھ ایک پرامن احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے  صدر یون سک یول سے استعفے کا مطالبہ کیا۔  اس  مظاہرے نے 2017 میں سابق صدر پارک گون ہئی کے مواخذے کا باعث بننے والے وسیع  پیمانے کے موم  بتی احتجاج کی یاد دلا دی۔ بعد ازاں، مظاہرین نے صدارتی دفتر کی طرف مارچ کیا۔

جنوبی کوریا کی چھ اپوزیشن جماعتوں نے صدر یون سک یول کو عہدے سے برطرف کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں ایک قانونی مسودہ پیش کیا۔ یون کو پہلے ہی نہ صرف حزب اختلاف بلکہ اپنی ہی پارٹی کے ارکان کی جانب سے آمرانہ طرز حکمرانی کے الزامات کا سامنا تھا۔

یہ مسودہ باضابطہ طور پر پیش کرنے کے لیے بدھ کی رات نصف شب کے فوراً بعد (1500 جی ایم ٹی) پارلیمنٹ کا عمومی اجلاس منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

"ہم غیر قانونی مارشل لا کو نظر انداز نہیں کر سکتے،" ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن اسمبلی کم یونگ من نے صحافیوں کو بتایا۔ "ہم اب مزید جمہوریت کے زوال کی اجازت نہیں دے سکتے۔"

صدر یون سک یول کی حکمران جماعت "پیپلز پاور پارٹی" کے رہنما نے وزیر دفاع کم یونگ ہیون کی برطرفی اور پوری کابینہ کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ وزارت دفاع نے اعلان کیا کہ کم نے خود مستعفی ہونے کی پیشکش کی ہے۔

اس بحران نے عالمی مالیاتی منڈیوں کو ہلا کر رکھ دیا اور جنوبی کوریا کے KOSPI انڈیکس میں 1.4 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ اس کے نتیجے میں، رواں سال کے آغاز سے اب تک ہونے والے نقصانات 7 فیصد سے تجاوز کر گئے، جس نے KOSPI کو اس سال ایشیا کی بدترین کارکردگی دکھانے والی بڑی اسٹاک مارکیٹ بنا دیا۔

وون کی قدر مستحکم رہی لیکن اب بھی دو سال کی کم ترین سطح کے قریب تھی۔ ڈیلرز نے شبہ ظاہر کیا کہ جنوبی کوریا کے حکام نے کرنسی مارکیٹ میں مداخلت کی ہے۔ یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب وزیر خزانہ چوئی سانگ موک اور جنوبی کوریا کے مرکزی بینک کے گورنر ری چانگ یونگ کے درمیان رات گئے ملاقات ہوئی۔

بدھ کی رات چوئی نے عالمی مالیاتی رہنماؤں اور کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کو ایک ہنگامیپیغام بھیجا۔ وزارت خزانہ کے مطابق، مارکیٹ معمول کے مطابق کام کر رہی ہے اور وزارت، سیاسی بحران کے ممکنہ منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

کوئی حقیقی  خطرہ  موجود نہیں

یون نے منگل کی رات اپنی ٹیلی ویژن تقریر میں کہا کہ مارشل لاء ملک کو شمالی کوریا نواز ریاست مخالف قوتوں سے بچانے اور آزاد آئینی نظام کے دفاع کے لیے ضروری ہے۔ تاہم، انہوں نے کسی ٹھوس خطرے کا ذکر نہیں کیا۔

چند گھنٹوں کے اندر، جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ نے ایک اجلاس میں مارشل لاء کے خاتمے کے لیے متفقہ طور پر ووٹ دیا، جس میں 300 اراکین میں سے 190 نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں یون کی پارٹی کے 18 ارکان بھی شامل تھے۔

صدر نے مارشل لاء کے اعلان کے تقریباً چھ گھنٹے بعد اس فیصلے کو واپس لے لیا۔

قومی اسمبلی کے سامنے مظاہرین نے نعرے لگاتے ہوئے اور تالیاں بجاتے ہوئے ردعمل دیا۔ وہ "ہم جیت گئے!" کے نعرے لگا رہے تھے اور ایک مظاہرین نے ڈھول بجایا۔

"یہ رائے موجود ہے کہ صورتحال اتنی سنگین نہیں تھی کہ مارشل لاء لگایا جاتا اور ہنگامی مارشل لاء کے طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا، لیکن یہ مکمل طور پر آئینی دائرہ کار کے اندر کیا گیا،" جنوبی کوریا کے ایک صدارتی اہلکار نے فون پر وضاحت کی۔

شمالی کوریا کی طرف سے، جنوبی کوریا میں ہونے والے اس ڈرامے پر ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

یون نے اپنی مقبولیت میں کمی کے ساتھ ہی اپنے ناقدین کو "کمیونسٹ آمرانہ اور ریاست مخالف قوتیں" قرار دے کر جنوبی کوریائی عوام میں بے چینی پیدا کر دی۔ نومبر میں، انہوں نے اپنے اور اپنی اہلیہ کے خلاف اثر و رسوخ کے غلط استعمال کے الزامات کو مسترد کیا اور مزدور یونینوں کے خلاف سخت رویہ اپنایا۔

بدھ کے روز سیئول بڑی حد تک معمول کے مطابق دکھائی دیا؛ ٹرینوں اور سڑکوں پر رش کے اوقات میں حسب معمول ہجوم تھا۔

تاہم، ہنڈائی موٹر کی مزدور یونین نے اعلان کیا کہ وہ جمعرات اور جمعہ کو ہڑتال کرے گی۔ نیور کارپوریشن اور ایل جی الیکٹرانکس سمیت کچھ بڑی کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کا مشورہ دیا۔

جنوبی کوریا کی ایک بڑی سپر مارکیٹ چین نے بتایا کہ راتوں رات ڈبہ بند خوراک، فوری نوڈلز اور بوتل بند پانی کی فروخت میں اضافہ ہوا، لیکن اس نے گمنام رہنے کو ترجیح دی۔

39 سالہ سیئول کے رہائشی کم بیونگ کا کہنا ہے کہ"اس قسم کی صورتحال مجھے گہری تشویش میں مبتلا کر دیتی ہے اور میں ملک کے مستقبل کے بارے میں بہت فکرمند ہوں۔"

 اگر دو تہائی اراکین اس کے حق میں ووٹ دیں تو قومی اسمبلی صدر کو برطرف کر سکتی ہے۔ اس کے بعد، آئینی عدالت کے نو میں سے چھ ججوں کی منظوری کے ساتھ ایک عدالتی عمل شروع ہوگا۔

یون کی پارٹی کے پاس 300 نشستوں والی اسمبلی میں 108 نشستیں ہیں۔

خطرہ ٹل گیا

اگر یون مستعفی ہو جاتے یا انہیں عہدے سے ہٹا دیا جاتا، تو وزیر اعظم ہان دک-سو، نئے انتخابات ہونے تک 60 دن کے لیے ملک کی قیادت سنبھالتے۔

"جنوبی کوریا نے بطور قوم خطرے سے نجات حاصل کر لی ہے، لیکن صدر یون نے شاید اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے،" واشنگٹن میں قائم ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے نائب صدر ڈینی رسل نے جنوبی کوریا میں 1980 کے بعد پہلی بار مارشل لاء نافذ کیے جانے سے متعلق تبصرہ کیا ہے۔۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے یون کے مارشل لاء کے فیصلے کو واپس لینے کے اقدام کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ "ہم توقع کرتے ہیں کہ سیاسی اختلافات پرامن طریقوں سے اور قانونی اصولوں کے مطابق حل کیے جائیں گے۔"

جنوبی کوریا میں 1950 سے 1953 کے دوران ہونے والی کوریا جنگ کے نتیجے میں تقریباً 28,500 امریکی فوجی تعینات ہیں۔

دونوں اتحادیوں کے درمیان طے شدہ دفاعی مذاکرات اور مشترکہ فوجی مشقیں، اس بحران کے باعث پیدا ہونے والے سفارتی نتائج کے سبب ملتوی کر دی گئیں۔

چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ جنوبی کوریا کی سیاسی صورتحال "داخلی معاملہ" ہے، جبکہ روس نے جنوبی کوریا میں ہونے والے "افسوسناک" واقعات پر تشویش کا اظہار کیا۔

یون، جو اپنے کیریئر کے دوران ایک تجربہ کار وکیل رہے، 2022 میں جنوبی کوریا کی تاریخ کے سب سے سخت صدارتی انتخاب میں بمشکل کامیاب ہوئے، جس میں انہوں نے عوامی بے چینی کی ایک بڑی لہر سے فائدہ اٹھایا۔

تاہم، یون ایک غیر مقبول رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں، جن کی حمایت کی شرح کئی ماہ سے تقریباً 20 فیصد پر برقرار ہے، اور اپریل میں ہونے والے انتخابات میں حزب اختلاف نے پارلیمنٹ کی تقریباً دو تہائی نشستیں جیت لیں۔

جنوبی کوریا میں 1948 میں جمہوریہ کے طور پر قیام کے بعد سے اب تک مارشل لاء ایک درجن سے زائد بار نافذ کیا جا چکا ہے۔ 1980 میں، ایک گروپ فوجی افسران نے اس وقت کے صدر چوی کیو-ہا کو جمہوری حکومت کی بحالی کے مطالبات کو دبانے کے لیے مارشل لاء نافذ کرنے پر مجبور کیا تھا۔

 

 

دریافت کیجیے
صدر ایردوان کا لبنان میں فائر بندی کا خیر مقدم
"کوپ کوپ" چاڈ میں فرانسیسی قتل عام کی داستاں
رہائی پانے والے قیدی کی شامی جیل میں سلوک کی روداد
عالمی سائنس دانوں کا غزہ میں جنگ رکوانے کےلیے کھلا خط
2024 برکس کے عروج کے لئے ایک اہم موڑ کیوں ہے
شولز کی معزولی کے بعد جرمنی ایک دوراہے پر
خبر نامہ
تنازعہ اسرائیل۔ فلسطین کی تاریخ میں 7 اکتوبر کی اہمیت
غزہ چھوڑنے سے انکار پر اسرائیلی جیل میں ایک فلسطینی ڈاکٹر ہلاک
اسرائیل کے قیام کا سبب بننے والی صیہونی دہشت گردی پر ایک نظر
کیا ٹرمپ توسیع پسند ہیں؟  خطہ امریکہ پر امریکی قبضے  کے حوالے سے  ایک نظر
2024غزہ سے یوکرین اور اس سے آگے، یہ جنگوں کا سال رہا ہے
کیا بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) پر امریکی پابندیاں اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات میں رکاوٹ بن سکتی ہیں
کیا لبنان نے نئی قیادت کے ساتھ حزب اللہ کے اثر و رسوخ پر قابو پا لیا ہے؟
اسرائیل کی نسل کُشی جنگ مسلمانوں کے بعد عیسائیوں کو بھی نگل رہی ہے۔
TRT Global پر ایک نظر ڈالیں۔ اپنی رائے کا اظہار کریں!
Contact us