بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے پیر کے روز پڑوسی ملک بھارت کے ایک سیاستدان کی اس درخواست پر حیرت کا اظہار کیا، جس میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ملک میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کو پرتشدد حملوں سے بچانے کے لیے امن فوج بھیجے۔
ملک میں اگست میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں 15 سال سے سخت گیر طریقے سے حکومت کرنے والی وزیر اعظم شیخ حسینہ کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا۔
حسینہ کی برطرفی کے بعد کے افراتفری کے لمحات میں، ان کے دور حکومت کے حامی سمجھے جانے والے افراد کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے نتیجے میں اقلیتی ہندو برادری پر کئی حملے کیے گئے۔ ہندو برادری کے رہنماؤں نے مزید تشدد کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
بھارت کی مغربی بنگال ریاست کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی — جو بنگلہ دیش کے ساتھ قریبی ثقافتی اور لسانی تعلقات رکھتی ہے — نے پیر کے روز نئی دہلی سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی تشویش ظاہر کرنے کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کرے۔
ان کا کہنا ہے کہ " بنگلہ دیش کو امن فوج بھیجی جا سکتی ہے اور ہمارے لوگوں کو بچایا جا سکتا ہے۔"
'باہمی مفادات'
بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ توحید حسین نے شیخ حسینہ کی برطرفی کے بعد سے بھارت کی جانب سے بنگلہ دیشی قیادت پر کی جانے والی سب سے بڑی تنقید پر افسوس کا اظہار کیا۔
انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، "مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ممتا بینرجی نے ایسی بات کیوں کہی۔ میں ان سے ذاتی طور پر واقف ہوں اور ان کے گھر کئی بار جا چکا ہوں۔"
توحید حسین نے بھارت کے میڈیا پر بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی صورت حال کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے کا الزام لگایا، لیکن ساتھ ہی پڑوسی حکومت کو ایک زیادہ مصالحتی پیغام بھی دیا۔
انہوں نے کہا، "مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ باہمی مفادات کا تحفظ ہونا چاہیے اور بنگلہ دیش بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتا ہے۔"
شیخ حسینہ کی برطرفی کے بعد جمہوری اصلاحات نافذ کرنے کے لیے مقرر کیے گئے عبوری کابینہ کے ایک رکن توحید نے بتایا کہ انہوں نے اقلیتوں کے مسائل کے بارے میں پائے جانے والے غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے دیگر غیر ملکی سفارتکاروں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔
170 ملین آبادی والے اس ملک میں عوامی رجحان، حسینہ کی اہم بین الاقوامی حمایتی بھارت کے خلاف منفی سمت میں بدل رہا ہے۔