جرمنی کو یورپ کی سب سے بڑی معیشت کی حیثیت سے، عالمی تجارت میں ہونے والی تبدیلیوں کے دباؤ میں بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر بننے پر ہائی ٹیرف عائد کیے جانے کا امکان جرمنی کے معاشی استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
امریکہ جرمنی کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ 2023 میں جرمنی نے امریکہ کو 157.9 بلین یورو کی برآمدات سر انجام دیں۔ تاہم، ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر 25 فیصد، یورپی اشیاء پر 10 فیصد اور چینی مصنوعات پر 60 فیصد محصولات عائد کر سکتے ہیں۔ یہ خطرہ امریکہ میں جرمنی کے مارکیٹ شیئر کو کمزور کر سکتا ہے اور اس کی برآمدات میں 15% کی کمی کا موجب بن سکتا ہے۔
جرمن معیشت مہنگائی اور وسیع پیمانے پر نوکریوں سے فارغ کیے جانے کے خلاف نبرد آزما ہے۔ معروف کمپنیاں ووکس ویگن، تھیسنکرپ اور ڈوئچے باہن ہزاروں کی تعداد میں ملازمین کو فارغ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ یہ صورت حال پہلے سے ہی مشکلات کا شکار معیشت کو مزید غیر مستحکم بنا رہی ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=igNrUsGz-yE&ab_channel=MoneyTalks
جرمنی کی بتدریج عمر رسیدہ ہونے والی آبادی ہنرمند افراد کے فقدان کا موجب بن رہی ہے جس سے اس کا غیر ملکی افرادی قوت پر انحصار بڑھ رہا ہے۔ بین الاقوامی ٹیلنٹ کو راغب کرنے کے لیے ملک کو مزید مثبت پالیسیاں اپنانا ہوں گی۔
اپنے اقتصادی دارو مدار پر نظر ثانی کرنے کا ہدف بنانے والا جرمنی، اس تناظر میں ترکیہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ترکیہ کی متحرک افرادی قوت اور بڑھتی ہوئی صنعت جرمنی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک اہم موقع ہے۔
عالمی تجارت میں غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے اور ملکی معاشی چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے جرمنی کو ایک اسٹریٹجک تبدیلی اور اختراعی حل کے حصول پر کام کرنا ہو گا۔ یہ تبدیلی ملک کے معاشی مستقبل کو محفوظ بنا سکتی ہے اور اس کی عالمی مسابقت میں اضافہ کر سکتی ہے۔