ٹرمپ انتظامیہ: ایران کے اندرونی اختلافات اور بین الاقوامی حکمت عملی
ایران کی سیاسی شخصیتوں میں ٹرمپ انتظامیہ کے بارے میں متعدد آراء سامنے آئی ہیں، خاص طور پر جب ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا۔ اصلاح پسندوں کا موقف ہے کہ ایران کو براہ راست مذاکرات میں شریک ہونا چاہیے، جبکہ قدامت پسند معاہدے کی ذمہ داریوں کو معطل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں، ایران میں اصلاح پسندوں اور قدامت پسندوں کے درمیان آنے والے وقت میں کشیدگی بڑھنے کے امکانات موجود ہیں۔
اختلافات کی جڑیں
اصلاح پسندوں کا یہ خیال ہے کہ ٹرمپ کی چین کے خلاف حکمت عملی ایران کے ساتھ ایک نئی طرز کی شراکت داری کا متقاضی ہے۔ تاہم، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا ٹرمپ عملی طور پر ایک مضبوط موقف اختیار کرتے ہیں یا نہیں۔ دوسری طرف، قدامت پسندوں نے ٹرمپ کے جنگ مخالف بیانات کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا، اور ایران کی سلامتی کے حوالے سے ان کے تحفظات میں اضافہ ہوا ہے۔
ٹرمپ کی سخت پالیسیوں کے اثرات
ٹرمپ انتظامیہ میں شامل اہم شخصیات کی جانب سے سخت پالیسیوں کے حمایتی ہونے سے ایران میں ایک بے یقینی کی فضاء قائم ہوگئی ہے۔ جوہری معاہدے سے دستبرداری کے بعد ایرانی قیادت نے واشنگٹن پر اپنا اعتماد کھو دیا، جس کے نتیجے میں ایران کی جانب سے دو جہتی حکمت عملی اپنا لینے کی ضرورت محسوس کی گئی۔
جامع حکمت عملی کی تلاش
یہ بات واضح ہے کہ ایران ٹرمپ کے ممکنہ دوبارہ الیکشن کے دوران اپنی بین الاقوامی تعلقات میں ایک نئی جہت متعارف کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایران اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنے علاقائی اثر و رسوخ میں بھی اضافہ کرنا چاہتا ہے، جو کہ اپنی سفارتی بیان بازی کے ذریعے قائم ہوگا۔ ایران کو درپیش چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے یہ ایک طویل المدتی حکمت عملی اپنانا چاہتا ہے۔
اس صورت حال میں، یہ دیکھنا ہوگا کہ ٹرمپ اگر دوبارہ انتخاب جیتتے ہیں تو کیا وہ اپنے اندرونی اقتدار کی مضبوطی کے لیے ایران کے ساتھ کسی قسم کا ٹھوس معاہدہ کرنے کی کوشش کریں گے یا پھر مزید سخت پالیسیوں کی جانب بڑھیں گے۔
اصلاح پسندوں کی پوزیشن
ایران کے اصلاح پسندوں کی نظریں ٹرمپ کے غیر جنگی بیانات پر ہیں، جسے وہ ایک سنہری موقع سمجھتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی سطح پر اپنی پوزیشن کو بہتر بنا سکیں۔ ان کی کوشش ہے کہ ایران ٹرمپ کی طرف سے ملنے والے اس موقع کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر جائے، تاکہ کم از کم ایک نیا روڈ میپ طے کیا جا سکے۔
قدامت پسندوں کی تشویش
اس کے برعکس، قدامت پسندوں نے کہا ہے کہ ایران کو ٹرمپ کی پالیسیوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنی سلامتی کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ یقیناً، وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ٹرمپ کے دور میں ایران کی سلامتی اور مشرق وسطیٰ میں اس کے اثر و رسوخ کو متاثر کیا جا سکتا ہے۔
ایران کا نیا روڈ میپ
ایران کے لیے یہ ضروری ہو گا کہ وہ نہ صرف بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کریں، بلکہ اپنے علاقائی اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے کے لیے بھی اقدامات کریں۔ اگرچہ ایران کی قیادت کو علم ہے کہ ٹرمپ کی ممکنہ واپسی اسے ایک نیا چیلنج فراہم کرے گی، تاہم ایرانی قیادت اپنے جوہری پروگرام کی ترقی کی طرف توجہ مرکوز رکھے گی۔
ایران کی سیاسی رہنمائی کے اندرونی اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ آنے والے دنوں میں ایرانی حکمت عملی کیسا رخ اختیار کرے گی۔ ایرانی قیادت کو ساتھ لے کر چلنے میں کس طرح کی شراکت داری کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے، یہ سب ٹرمپ کی پالیسیوں کے جواب میں واضح ہو گا۔
یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ایران کو ایک مرتب اور مؤثر حکمت عملی کی ضرورت ہے جو اسے بین الاقوامی سطح پر محفوظ رکھ سکے، جبکہ اپنے داخلی اختلافات کو بھی مدنظر رکھنا نہایت اہم ہے۔ ایرانی قیادت کو اس بات کا مکمل احساس ہونا چاہیے کہ محض ملی جلی پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے سے زیادہ حقیقی حکمت عملی وضع کی جانی چاہیے جو اس کی بیرونی اور اندرونی حقیقتوں کو تسلیم کرے، اور اس کے قومی مفادات کی حمایت میں عمل پیرا ہونے کی یقین دہانی کروائے۔