عہدِ عثمانیہ میں رمضان اور حضوری   دروس
ترکیہ
5 منٹ پڑھنے
عہدِ عثمانیہ میں رمضان اور حضوری دروس
رمضان
20 گھنٹے قبل

سلطنتِ عثمانیہ کے 600 سال سے زیادہ عرصے تک قائم رہنے کی سب سے اہم وجوہات میں سے ایک یہ تھی کہ اس نے اسلام کو اپنی حکمرانی کا لازمی جزو سمجھا۔ ترکوں کی قیادت میں یہ سلطنت 1517 میں عباسی خاندان سے خلافت حاصل کرنے کے بعد تیزی سے پھیلی اور سماجی و دینی امور میں علمی اتفاق رائے کو بڑی اہمیت دی۔

اسی وجہ سے، 1759 تک حضوری ہمایوں دروس کا تصور باقاعدہ شکل اختیار کر گیا۔ ماہ  رمضان میں عثمانی سلطان کی موجودگی میں ہونے والے ان دروس میں علما مختلف قرآنی آیات کی تفسیر کرتے اور طلبہ سمیت دیگر حاضرین کے سوالات کے جوابات دیتے۔ یہ دروس ایک مشاورتی اور علمی شرکت پر مبنی روایت کا حصہ تھے۔

حضوری دروس اور عثمانی حکمرانی میں دینی علوم کی اہمیت

سالانہ حضوری دروس عموماً عثمانی سلطنت کے اعلیٰ ترین مرکز استنبول میں واقع توپ قاپی محل میں منعقد کیے جاتے تھے۔ یہ روایت 165 سال تک جاری رہی اور بالآخر 1924 میں خلافت کے خاتمے کے ساتھ تاریخ کا حصہ بن گئی۔

حساس دینی معاملات پر علمی مباحث کو فروغ دینے کا تصور عثمانی سلطنت کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتاہے۔ سلاطین، علمی اور دینی زندگی کو متحرک رکھنے اور ریاست کو اسلامی اقدار سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے علما اور دینی رہنماؤں کے ساتھ اجلاس منعقد کرتے تھے۔

عثمانی سلاطین اور علمی مجالس کی روایت

اسی وجہ سے عثمانی سلاطین نے اپنے دور کے ممتاز دینی علما کو طلبہ کے ساتھ محل میں مدعو کرنے پر خاص توجہ دی، یہاں تک کہ بعض کو اپنا ذاتی استاد بھی مقرر کیا۔

1451 سے 1481 کے درمیان سلطنت کو شاندار عسکری فتوحات کے ساتھ حکمرانی کرنے والے فاتح سلطان محمد (ثانی محمد) نے اس علمی اتفاق رائے کی روایت کو ایک نئی سطح پر پہنچایا۔ انہوں نے اس طرح کے علمی مباحثوں میں اپنی شرکت کو یقینی بنایا اور عثمانی معاشرے میں دینی و سائنسی فکر کی حوصلہ افزائی کو بے حد اہمیت دی۔

تو حضوری دروس کیسے منعقد کیے جاتے تھے؟

پہلا درس ظہر اور عصر کی نمازوں کے درمیان کم از کم چھ علما کی شرکت کے ساتھ منعقد ہوتا تھا۔ ان دروس کو "حضوری ہمایون دروس" کہنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ سلطان کی موجودگی میں ہوتے تھے۔

تاریخ میں اس قدر طویل عرصے تک مسلسل جاری رہنے والے دینی و ثقافتی پروگرام بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔

حضوری دروس کا طریقہ کار

حضوری دروس میں درس دینے والے علما کو "مقرِّر"کہا جاتا تھا، جبکہ اس موضوع پر بحث کرنے اور سوالات پوچھنے والے علما کو "مخاطب" کہا جاتا تھا۔ ہر مقرِّر کے لیے پانچ مخاطب ہوتے تھے۔ تاہم، درس دینے والے علما کی تعداد، دروس کے دن، اوقات اور مدت وقتاً فوقتاً بدلتے رہتے تھے۔

تمام سرگرمیوں کی نگرانی شیخ الاسلام کے ذریعے کی جاتی تھی، جو فتویٰ دینے کے اختیارات رکھنے والے سب سے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ سالانہ اس سرگرمی میں جن سورتوں اور آیات پر تبصرہ کیا جانا تھا، وہ رمضان کے آغاز سے پندرہ دن پہلے شیخ الاسلام کے ذریعے اعلان کر دی جاتی تھیں۔ اس کے بعد ان آیات پر سوالات تیار کیے جاتے تھے۔

یہ دروس مکمل طور پر علمی آزادی کے ماحول میں ہوتے تھے۔ ایک آیت مقرِّر کے ذریعے پڑھی اور تفسیر کی جاتی، اس کے بعد مخاطب کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیے جاتے۔ پادشاہ ان دروس اور مباحثوں کو بغور سنتا تھا۔ بیشتر علما اپنی پیشکشیں 13ویں صدی کے فارسی فقیہ، دین کے عالم اور قرآن کے مفسر قاضی بیضاوی کے کاموں پر مبنی کرتے تھے۔

حضوری دروس کی اہمیت اور اس کا اثر

اس سرگرمی کو اس کی اہمیت دینے والی بات یہ تھی کہ علما قرآن کی آیات کو حدیث حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال)، فقہ، تاریخ اور جغرافیائی سیاق و سباق کے تحت تفسیر کرتے تھے۔ یہ ایک ایسا عمل تھا جو عثمانی خاندان میں عقلی اور روحانی فکر کو فروغ دینے والا اور ایک ایماندار و فکری طور پر نکتہ چینی کرنے والا عمل کے طور پر سامنے آتا تھا۔

حضور دروس میں شریک علما کو پادشاہ کی طرف سے تحفے دے کر انعامات سے نوازا جانا معمول تھا۔

ملاقاتوں کا مقام پادشاہ کی جانب سے منتخب کیا جاتا تھا۔ یہاں مقرِّر پادشاہ کے دائیں طرف بیٹھتا، جبکہ مخاطب مقرِّر کے ساتھ نصف دائرے کی شکل میں بیٹھتے تھے۔

پادشاہ کے حضور میں دروس میں شریک ہونے والے مرد و خواتین کے نام پادشاہ کی منظوری سے منظور کیے جاتے تھے۔

سلطان عبد الحمید دوم کے دور میں، دروس رمضان کے مہینے میں ہفتے میں دو دن یلدز محل میں منعقد ہوتے تھے اور بعض سیاسی شخصیات کو بھی مدعو کیا جاتا تھا۔

سلطان واحد الدین اور خلیفہ عبد المجید افندی کے دور میں یہ دروس دولماباہچےمحل میں جاری رہے۔ آخری درس مئی 1923 میں ہوا۔

استنبول یونیورسٹی کی لائبریری میں یلدزمحل کی لائبریری سے آئے ہوئے، دستی تحریروں سے مزین 20 سے زیادہ "حضوری درس رجسڑ"  محفوظ ہیں۔

آج کل، مراکش کے سلطان کے حضور میں، طریقہ کار اور مواد کے لحاظ سے عثمانی حضوری دروس سے ملتے جلتے دروس رمضان کے مہینے میں منعقد کیے جاتے ہیں۔ یہ دروس "الدروس الحسانیہ" کے نام سے عربی اور انگریزی میں شائع کیے جاتے ہیں۔ ترکیہ سمیت تمام اسلامی ممالک سے دینی علما اس پروگرام میں مدعو کیے جاتے ہیں۔

دریافت کیجیے
صدر ایردوان کا لبنان میں فائر بندی کا خیر مقدم
"کوپ کوپ" چاڈ میں فرانسیسی قتل عام کی داستاں
رہائی پانے والے قیدی کی شامی جیل میں سلوک کی روداد
عالمی سائنس دانوں کا غزہ میں جنگ رکوانے کےلیے کھلا خط
2024 برکس کے عروج کے لئے ایک اہم موڑ کیوں ہے
شولز کی معزولی کے بعد جرمنی ایک دوراہے پر
خبر نامہ
تنازعہ اسرائیل۔ فلسطین کی تاریخ میں 7 اکتوبر کی اہمیت
غزہ چھوڑنے سے انکار پر اسرائیلی جیل میں ایک فلسطینی ڈاکٹر ہلاک
اسرائیل کے قیام کا سبب بننے والی صیہونی دہشت گردی پر ایک نظر
کیا ٹرمپ توسیع پسند ہیں؟  خطہ امریکہ پر امریکی قبضے  کے حوالے سے  ایک نظر
2024غزہ سے یوکرین اور اس سے آگے، یہ جنگوں کا سال رہا ہے
کیا بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) پر امریکی پابندیاں اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات میں رکاوٹ بن سکتی ہیں
کیا لبنان نے نئی قیادت کے ساتھ حزب اللہ کے اثر و رسوخ پر قابو پا لیا ہے؟
اسرائیل کی نسل کُشی جنگ مسلمانوں کے بعد عیسائیوں کو بھی نگل رہی ہے۔
TRT Global پر ایک نظر ڈالیں۔ اپنی رائے کا اظہار کریں!
Contact us