وزارتِ ثقافت و سیاحت کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق آثارِ قدیمہ کی کھدائیوں کا کام دوکوز ایئلول یونیورسٹی کے زیر اہتمام زیر آب تحقیقاتی مرکز (SUDEMER) کی جانب سے بحری ورثے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے۔
اس سال کی کھدائیوں میں جہاز کی شناخت اور اس کے غرق ہونے کے دور سے متعلق اہم معلومات حاصل کی گئی ہیں۔ ان نوادارت میں جینسری قوتوں کی 14 رائفلیں تھے، تقریبا 2,500 گولیاں اور پھٹے ہوئے گولے شامل ہیں۔ یہ نوادرات جہاز کے کسی جنگ میں حصہ لینے کی نشاندہی کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ، چین کی طرف سے اسلامی بازاروں کے لیے تیار کردہ نیلے رنگ کے چینی مٹی کے برتن، یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جہاز خاص مشن یا سفارتی مقصد کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ چینی مٹی کے برتنوں کا پیکنگ میں ملنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر تحفے کے طور پر بھیجے گئے تھے۔
اس کے علاوہ، جہاز کے عملے اور سپاہیوں کے ذاتی سامان کی باقیات بھی ملیں ہیں جن میں پائپ، شمیشیر کے کنگھے، تانبے کے برتن، مٹی کے برتن اور بوتلیں شامل ہیں۔ تیونس کے جربہ علاقے کے مٹی کے برتنوں کی موجودگی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ جہاز ممکنہ طور پر شمالی افریقہ سے لوٹ رہا تھا۔
قزلان غرق شدہ جہاز کی دریافت، ترک سمندری حدود میں پہلی بارجینیسری فوجیوں کو لے جانے والے ایک عثمانی جہاز کی باقیات کی دریافت کی حیثیت رکھتی ہے، جوکہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔
جہاز کے سنجاق کے حصے بھی ملے ہیں، جو جہاز کی تعمیراتی تکنیکوں کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ تمام شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ جہاز 17ویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں ایک جنگ کے بعد غرقاب ہوا تھا۔
اس کھدائی کے 2025 تک مکمل ہونے کی توقع ہے، اور ان دریافتوں کے ذریعے عثمانی بحری تاریخ کے بارے میں نئی معلومات منظر عام پر آنے کا خیال کیا جاتا ہے۔